READER'S CLUB
Creative Visualization / ہمارے تصورات ہماری کامیابی کے ضامن
ہمارے تصورات ہماری کامیابی کے ضامن
Hamary Taswurat Hamari Kamyabi Ky Zamin book
:تعارف
Hamary Taswurat Hamari Kamyabi Ky Zamin book
محترم قارئین! میں نے یہ کتاب اس لیے لکھی ہے ۔کہ میں اپنی زندگی کے بہترین تجربات اور احساسات میں آپ کو شریک کر سکوں۔ یہ کتاب ’’تخلیقی تصورِ عمل‘‘ کو سیکھنے سمجھنے استعمال کرنے کی ’’گائیڈ بک‘‘ ہے۔ اس کتاب کا بہت کم مواد میرے لئے پرانا ہے۔ یہ اُن بے حد عملی اور مفید خیالات اور ٹیکنیکس کا مرکب ہے جو کہ میں نے ذاتی مطالعہ سے سیکھی ہیں۔
میں نے بہت سے ذرائع سے استفادہ کیا۔ میں نے کتاب کے آخر میں مجوزہ ذرائع کی ایک فہرست شامل کر دی ہے ۔جو کہ آپ کے لیے دلچسپ اور مفید ہو گی۔اس کتاب میں بہت سی مختلف اقسام کی ٹیکنیکس موجود ہیں۔ غالباً آپ دیکھیں گے کہ یہ ٹیکنیکس اُس وقت بہتر کام کرتی ہیں۔ جب آپ ان کو بیک وقت جذب کرنے کی بجائے بتدریج جذب کریں۔
:محبت بھرا تحفہ
میری تجویز ہے کہ آپ اس کتاب کو آہستہ آہستہ پڑھیں۔ اور کچھ مشقوں کو ساتھ ساتھ کرنے کی کوشش کرتے جائیں ۔اور خود کو موقع دیں کہ اُن کو گہرائی تک جذب کر سکیں۔ اگر آپ اس کتاب کو ایک ہی نشست میں پڑھنا چاہتے ہیں ۔تو آہستہ آہستہ پڑھیں۔ یہ کتاب میری طرف سے آپ کے لیے ایک محبت بھرا تحفہ ہے۔ یہ کتاب آپ کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ لطف، اطمینان اور خوشی لانے میں مددگار ہو سکتی ہے یہ اُس روشنی کو پروان چڑھا سکتی ہے جو آپ کے اندر چمک رہی ہے۔
کتاب زیادہ سے زیادہ شعوری انداز میں قدرتی تخلیقی تخیل کو ایک سائنسی تکنیک کے طور پر استعمال کرنا سکھاتی ہے تاکہ آپ تخلیق کر سکیں وہ محبت، تکمیل، خوشی، اطمینان بخش تعلقات، صلہ بخش محنت، ذاتی اظہار، صحت، خوبصورتی، خوشحالی، داخلی سکون اور ہم آہنگی جس کی آپ کو حقیقی ضرورت ہے یا جو کچھ آپ کی دلی خواہش ہے۔ ’’تخلیقی تصور عمل‘‘ کا استعمال ہمیں ایک ایسی کنجی فراہم کرتا ہے جس سے ہم قدرتی نیکی پا سکتے ہیں۔
کتاب کے اردو مترجم کی رائے
شکتی گیوّ ن کی اس منفرد کتاب سے میرا تعارف1998ء میں اس وقت ہوا تھا۔ جب میں ڈیل کار نیگی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کیلیفور نیا کے فا ئنل امتحان کی تیار میں ہمہ تن مصروف تھا۔ امتحان سے صرف دو ہفتے قبل روڈ ایکسیڈنٹ میں میرا شانہ شدید زخمی ہوا اور امکان تھا کہ زخمی بازو کی و جہ سے میں امتحان نہ دے سکوں گا۔
لیکن میں ہر حال میں امتحان دینے کے لئے بھر پور عازم تھا کیو نکہ یہ امتحان میری تعلیمی و پیشہ ورانہ زندگی کے لئے بہت اہم تھا۔ ڈاکٹر نے میرے شل بازو کے پیش نظر مجھے امتحان سے اجتناب کا مشورہ دیا لیکن میرا عزم مصمم دیکھتے ہوئے اُ س نے اپنے طریقہ علاج میں فو ری تبدیلی کی اور مر ہم پٹی کے علاوہ مجھے ذہنی مشق کیلئے شکتی گیوّن کی یہ کتاب دی کہ میں اس کتاب میں بتلائی تخیلی مشقوں کو بروئے کار لاؤں۔
بازوکی تکلیف کی وجہ سے میں از خود یہ کتاب پڑھنے سے قاصر تھا لہذا ایک نرس نے مجھے کتاب کے حصہ چہا رم میں بتلائی ذہنی و تکنیکی مشقیں کروا نا شروع کیں میں بیڈ پر لیٹے بند آنکھوں سے یہ مشقیں صبح وشام دوہرا تا رہا…… اور پھر وہی ہوا جس کا وعدہ اس کتاب نے ہر قاری سے کیا ہے!
کتاب کے انگلش کے ناشر کی رائے
1978ء میں شکتی نے اپنی پہلی کتاب ’’تخلیقی تصور عمل‘‘ لکھی۔ ہم نے ابتدائی طور پر اس کی 2000 کاپیاں شائع کیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے کتاب کی تشہیر کے لئے کوئی پیسہ خرچ کیا ہو، اور نہ ہی میرے خیال میں ہم نے نظرثانی کے لئے کوئی کاپی بھیجی تھی۔
لیکن کتاب اتنی تیزی سے فروخت ہوئی کہ جیسے مونہہ سے نکلے ہوئے الفاظ فضا میں بکھر جاتے ہیں۔ کتب فروش ہمیں بتاتے رہتے تھے کہ جو لوگ کتاب خریدنے آتے وہ چند دن بعد اپنے دوستوں کے لئے بھی پانچ یا دس کتابوں کے طلب گار ہوتے تھے۔ ابتداء ہی سے کتاب کی ازخود فروخت کو میں شکتی کے صاف اور خوبصورت اندازِتحریراورٹھوس مواد سے منسوب کرتا ہوں۔
قارئین کی جانب سے پُرجوش خطوط
یہ ایک ایسی کتاب تھی جسے لوگ پڑھنا اور بار بار پڑھنا چاہتے تھے۔ یہ ایک ایسی کتاب تھی جس کی بتلائی ہر ٹیکنیک کی لوگوں نے پرورش کی۔لہازہ یہ نایاب کتاب تھی جس نے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ ہمیں کتاب کی اشاعت کے فوراً بعد ہی قارئین کی جانب سے پُرجوش خطوط موصول ہونا شروع ہو گئے تھے۔
کتاب کی امریکہ میں اب تک چالیس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ اور پچیس سے زیادہ غیر ملکی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد شکتی کو ایک پسندیدہ مقرر اور فکری راہنما کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا اور مجھے بطور پبلشر۔ اس کتاب نے ہمیں بتایا کہ کیسے کامیابی کا ذہنی نقشہ بنا کر اس کو تخلیق کیا جاتا ہے۔ میں شکتی کا شکرگزار رہوں گا کہ اس کے پاس وہ بصیرت اور حوصلہ تھا ۔کہ وہ اس کتاب کو لکھ سکیں۔
:اور مارک ایلن
میں نے اور مارک ایلن نے کتاب کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ ہمارے پاس نہ تو اشاعت کاتجربہ تھا اورنہ سرمایہ ۔ لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح ہم نے کتاب کو چند بک اسٹالز پر پہنچانے کا انتظام کر ہی لیا۔
اس کے بعد جو ہوا وہ تو گویا تاریخ بن گیا۔ یوں لگتا تھا کہ لوگوں کو اس کتاب سے پیار ہو گیا ہے۔ اگلے چند سالوں میں یہ کتاب بتدریج سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی اور آج بھی اس کی مقبولیت ساری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ میرے خیال میں اس کی مقبولیت کی ایک وجہ اس کا مختصر، سادہ، عملی ہونا اور ایسی ٹیکنیکس ہیں جن کو لوگ فوری طور پر موثرانداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔